Islahih_writer

Add To collaction

بچوں اور گلیوں میں گہرا رشتہ ہے

گاؤں کی گلیاں  عام طور پر کشادہ ہی ہوتی ہیں۔ جو تنگ ہوتی ہیں اُن میں بہت کم لوگ آتے جاتے ہیں۔ جیسی بھی ہوں، گلیوں ہی سے گاؤں مکمل ہو تا ہے۔ کشادہ گلیوں میں کھیل کود ہوتا ہے، وقفے وقفے سے پھل اور سبزی بیچنے والے گزرتے ہیں۔ ان میں بچے  شور مچاتے ہیں، دوپہر میں سونے والوں کو جگا تے ہیں ۔ 
  بچوں اور گلیوں میں گہرا تعلق ہے۔ اچھلتے کودتے، شور مچاتے اور وقت بے وقت کھیلتے بچے گلیوں کی شان بڑھاتے ہیں ۔ انہیں آباد رکھتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتے ہیں تو گلیاں سونی لگتی ہیں۔ بڑے بوڑھے ان پر سے چپ چا پ گزر جاتے ہیں اور بچے.. بچے تو خیر بچے ہیں ،  وہ ان  پر کھڑے کھڑے کب کیا کر نے لگیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کبھی  پتھر پھینکیں گے، کبھی گیند  اچھالیں گے ، کبھی  بلے سے ٹھوکیں گے، کبھی گولی کھیلیں گے، کبھی لٹو سے ان کے سینے کو چاک کریں گے۔ کبھی ان  پر کھڑے ہو کر  ڈنڈے کی مدد سے گلی ّ کو ہوا میں دور تک اچھالنے کی کوشش کریں گے۔ 
   گاؤں کی گلیوں میں کرکٹ اور گلی کھیلنا آسان نہیں۔ بچوں کو بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے، بڑوں کی ڈانٹ سننی پڑتی ہے۔ کوئی بھی چار بات سنا دیتا ہے۔ گلی میں بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں، غلطی سے گیند کسی کے گھر میں چلی جائے، تب تو بچوں کی خیر نہیں، منت سماجت کے بعد گیند ملتی ہے اور یہ غلطی  بار بار ہوتی ہے۔ گلی ّکے کسی بھی گھر میں جانے کا ڈر رہتا ہے، اس وقت بھی عاجزی کرنی پڑتی ہے۔ اگر گیند یا گلی سے کسی کے گھر کا کوئی سامان ٹوٹ گیا، یا کسی کو چوٹ لگ گئی تو پھر گیند ملنے کا سوال ہی پید ا نہیں ہوتا۔  چا ر بات نہیں چار سو بات سننی پڑتی ہے اور بر وقت فرار نہ ہوپائے تو  لات گھونسوں کی بارش  ہوسکتی ہے۔ ڈنڈے سے بھی تواضع ممکن ہے۔ 
 گاؤں میں گرمی کی دوپہر میں قیلولہ عام ہے۔ اس وقت گلی میں کرکٹ کھیلنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا، جس گھر کے قریب کھیل ہوتا ہے ، وہاں کا مکین کسی بھی وقت سرخ آنکھیں لئے نمودار ہوسکتا ہے اور نیند ٹوٹنے کی دہائی دے کر بہت کچھ سنا سکتا ہے، گالی  دے سکتا ہے، میدان میں کھیلنے کا قیمتی مشورہ دے سکتا ہے اور وہاں کھیلنے والےتمام ننھے کھلاڑیوں کے گھر شکایت کرنے کی  پُر اثر دھمکی بھی دے سکتا ہے۔ 
  بچوں کا جواب نہیں۔ وہ ڈانٹ پھٹکار  اور لات گھونسے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ گلی کے عشق میں سب کچھ برداشت کرتےہیں۔ گالی سننے، بھگائے جانے اور مار کھانے پر گھڑی دو گھڑی کیلئے کہیں  دم لیتے ہیں، پھر ایک ایک کر کے آتے ہیں اور گلی آباد کر دیتے ہیں۔ اس طرح پل بھر میں اس کی کھوئی ہوئی رونق بحال ہوجاتی ہے ۔   
  بتاتے ہیں کہ ان گلیوں میں رسوا ہونے والے بہت سے ننھے کھلاڑیوں نے آگے چل کر اپنی شناخت قائم کی، گاؤں کا نام روشن کیا، کرکٹ کی دنیا میں اپنا مقام بنا یا ۔    ویسے آج کل کے بچے گلیوں میں کم ہی کھیلتے ہیں، کیونکہ اسکرین کی دُنیا کا کھیل انہیں زیادہ لطف دیتا ہے۔ اس میں  وہ خوش ہیں، اسی میں ہنس بول رہے ہیں، گیم پر گیم کھیل رہے ہیں، ان کے پاس گلی میں جانے کا وقت ہی نہیں ہے، ہاں ہاں وہ اب ان گلیوں میں کیوں پھریں؟ ممبئی کی زبان میں  خالی پھوکٹ میں کوئی چار بات سنا دیتا ہے ۔   
    اسی طرح اب گاؤں کی اکثر گلیاں پکی ّ ہوگئی ہیں، کہیں انٹر لاکنگ ہوئی تو کہیں پکی سڑک بن گئی ہے۔ پہلے  اکثر گلیاں کچی تھیں، یا کھڑنجا لگا ہوا تھا، ان میں نالیوں کا گندہ پانی بھی بہتا تھا۔اب بھی کچھ گاؤں میں  نالیوں کا گندہ پانی بہتا رہتا ہےجس سے گلی کی خوبصورتی  چھپ جاتی ہے ۔  
  مو سم کے اعتبار سے بھی ان گلیوں کے رنگ الگ الگ ہوتےہیں۔ گرمی کی تپتی دوپہر میں سنا ٹا رہتا ہے، اس وقت کھیلنے والے بچے، سبزی فروش اور بر ف بیچنے والے ہی نظر آتے ہیں۔ باقی سب گھرو ں میں آرام کرتےہیں۔ اس وقت گلی میں گرم ہواؤں کے تھپیڑے آتے ہیں  جو کبھی کبھی ریت کے ڈھیر کو اڑاتے ہیں  اور پوری گلی کو دھول سے بھر دیتےہیں۔ 
  جہاں تک  بر سات کا سوال ہے تو  سنئے، کہنے والے کہتے ہیں کہ گاؤں ہی کی گلی   میں سب سے پہلے کاغذ کی کشتی چلانے کا تجربہ کیا گیا۔   اس کے بعد یہ کشتی نغموں میں  چلی۔ اس پر بچوں کی نظمیں لکھی گئیں، کہانیاں بھی منظر عام پر آئیں۔ بر سات میں بارش کے پانی سے گلی بھر جاتی ہے، اس میں مسلسل پانی بہتا ہے، گلی گلی سے بہتا ہوا پانی کھیتوں میں جاتا ہے  جو دھان کی فصل کو نئی زندگی دیتا ہے۔  اگر اس پانی سے کسی تالاب اور ندی کا پانی مل جاتاہے تو ان گلیوں میں مچھلیاں تک آجاتی ہیں جس کا بچہ، بوڑھا  اورجوان ہرکوئی شکار کرتا ہے۔  
 اسی طرح دانت بجنے میں سردی کا اثر گلیوں پر بھی ہوتا ہے۔ ان میں کم لوگ دکھائی دیتےہیں۔ سرد لہروں سے بچنے کیلئے لوگ گھروں میں دبک جاتے ہیں، کوئی کوئی نظر آتا ہے مگر وہ بھی الا ؤ کی ڈھال کے ساتھ ۔  وہ آگ جلا کر گلی کے کسی کونے میں بیٹھ جاتےہیں اور آگ سینکتے ہیں، انتہائی سردی کے دوران گرمی حاصل کرکے اسی گلی میں بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں، بعض دفعہ بڑی بڑی بھی باتیں کرتےہیں۔ گلی میں آگ کے سامنے  چھوٹوں کے ساتھ بڑے  ہوں توکارآمد باتیں بھی ہوتی ہیں، وہ ماضی اور حال کا موازنہ کرتے کرتے  لاشعوری طور پر بہت کچھ سکھا دیتے ہیں   ، بڑے ہونے کے بعد اس کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے  ۔

   10
9 Comments

surya

24-Dec-2021 02:49 PM

Very good

Reply

Islahih_writer

13-Jan-2022 12:52 AM

شکریہ

Reply

Orhan

22-Dec-2021 09:07 PM

nice

Reply

Islahih_writer

13-Jan-2022 12:52 AM

شکریہ

Reply

Raghuveer Sharma

22-Dec-2021 08:50 PM

awesome

Reply

Islahih_writer

13-Jan-2022 12:51 AM

شکریہ

Reply